قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
اس نے کہا تمھارے پاس وہ کھانا نہیں آئے گا جو تمھیں دیا جاتا ہے، مگر میں تمھیں اس کی تعبیر اس سے پہلے بتا دوں گا کہ وہ تمھارے پاس آئے۔ یہ اس میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا۔ بے شک میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کے ساتھ بھی کفر کرنے والے ہیں۔
﴿ قَالَ﴾ یوسف علیہ السلام نے ان کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا﴾” جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو ان کی تعبیر بتا دوں گا۔“ یعنی تمہیں دلی اطمینان ہونا چاہئے کہ میں تمہیں تمہارے خواب کی تعبیر ضرور بتاؤں گا میں تمہارا کھانا آنے سے بھی پہلے تمہیں تمہارے خواب کی تعبیر بتا دوں گا۔ شاید یوسف علیہ السلام یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس حال میں، جب کہ ان قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حاجت محسوس کی وہ ان قیدیوں کو ایمان کی دعوت دیں، تاکہ یہ حال ان کی دعوت کے لئے زیادہ مفید اور ان قیدیوں کے لئے زیادہ قابل قبول ہو۔ پھر یوسف علیہ السلام سے فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمَا ﴾یعنی یہ تعبیر جو میں تم دونوں کو بتاؤں گا ﴿مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي﴾” یہ اس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیا ہے۔“ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا اور وہ احسان یہ ہے﴿ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ﴾ ” میں نے اس قوم کا دین چھوڑا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتی اور وہ آخرت کے منکر ہیں“ (ترک) کا اطلاق جس طرح اس داخل ہونے والے پر ہوتا ہے جو داخل ہونے کے بعد وہاں سے منتقل ہوجاتا ہے اسی طرح اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اصلاً اس میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اس سے پہلے یوسف علیہ السلام ملت ابراہیم کے علاوہ کسی اور ملت پر تھے۔