وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے بڑا حکم اور بڑا علم عطا کیا اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
﴿ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ ﴾ ’’اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے۔‘‘ یعنی جب جناب یوسف علیہ السلام کے قوائے حسیہ اور قوائے معنویہ اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے اور ان میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ نبوت اور رسالت کا بھاری بوجھ اٹھا سکیں۔ ﴿آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا﴾’’تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو نبی، رسول اور عالم ربانی بنا دیا۔﴿ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾’’اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکو کاروں کو۔‘‘ یعنی جو پوری کوشش اور خیر خواہی سے خالق کی عبادت میں ” احسان“ سے کام لیتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو نفع پہنچا کر ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں ہم ان کو ان کے اس احسان کے بدلے علم نافع عطا کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یوسف علیہ السلام مقام احسان پر فائز تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی قوت، علم کثیر اور نبوت عطا کی۔