سورة یوسف - آیت 3

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں، اس واسطے سے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن وحی کیا ہے اور بے شک تو اس سے پہلے یقیناً بے خبروں سے تھا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ﴾ ’’ہم آپ پر بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ قصہ اپنی صداقت، اپنی عبارت کی سلاست اور اپنے معانی کی خوبصورتی کی وجہ سے سب سے اچھا قصہ ہے۔﴿ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ﴾ ’’اس واسطے کہ بھیجا ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن‘‘ یعنی وہ امور جن پر یہ قرآن مشتمل ہے جس کی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی اور اس کے ذریعے سے ہم نے آپ کو تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت بخشی۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔﴿ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ﴾ ’’اور یقیناً اس سے پہلے آپ بے خبروں میں سے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نزول وحی سے قبل آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے؟ مگر ہم نے اسے روشنی بنایا ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔ چونکہ یہ قرآن کریم جن قصوں پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح فرمائی نیز ذکر فرمایا کہ یہ قصہ علی الاطلاق بہترین قصہ ہے اور تمام کتابوں میں کوئی قصہ ایسا نہیں ملتا جیسا اس قرآن میں پایا جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام، ان کے والد یعقوب علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا نہایت خوبصورت اور تعجب انگیز قصہ ذکر فرمایا۔