سورة البقرة - آیت 152

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ړفَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ﴾” پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور اس پر بہترین اجر کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے فرمایا ” جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، جو کسی مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔“ سب سے بہتر ذکر وہ ہے جس میں دل اور زبان کی موافقفت ہو اور اسی ذکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور ذکر الٰہی ہی شکر کی بنیاد ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا حکم دیا ہے۔ پھر اس کے بعد شکر کا عمومی حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَاشْکُرُوْا لِیْ﴾ ’’اور میرا شکر کرو۔“ یعنی میں نے جو یہ نعمتیں تمہیں عطا کیں اور مختلف قسم کی تکالیف اور مصائب کو تم سے دور کیا اس پر میرا شکر کرو۔ شکر، دل سے ہوتا ہے، اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کر کے۔ زبان سے ہوتا ہے، اس کا ذکر اور حمد و ثنا کر کے، اعضاء سے ہوتا ہے اس کے حکموں کی اطاعت و فرمان برداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کر کے۔ پس شکر، موجود نعمت کے باقی رہنے اور مفقود نعمت (مزید نئی نعمتوں) کے حصول کے جذبے کا مظہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾۔ (ابراھیم:14؍7) ” اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا“ علم، تزکیہ اخلاق اور توفیق عمل جیسی دینی نعمتوں پر شکر کا حکم دینے میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں بلکہ یہی حقیقی نعمتیں ہیں جن کو دوام حاصل ہے، جب کہ دیگر نعمتیں زائل ہوجائیں گی۔ ان تمام حضرات کے لیے، جن کو علم و عمل کی توفیق سے نوازا گیا ہے، یہی مناسب ہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا اضافہ ہو اور ان سے عجب اور خود پسندی دور رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے شکر میں مشغول رہیں۔ چونکہ شکر کی ضد کفران نعمت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضد سے منع کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَکْفُرُوْنِ﴾” اور کفر نہ کرو‘‘ یہاں ”کفر“ سے مراد وہ رویہ ہے جو شکر کے بالمقابل ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری، ان کا انکار اور ان نعمتوں کا حق ادا کرنے سے گریز و فرار۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی عام ہو تب اس لحاظ سے کفر کی بہت سی اقسا م ہیں اور ان میں سب سے بڑی قسم اللہ تعالیٰ سے کفر ہے پھر اختلاف اجناس و انواع کے اعتبار سے مختلف معاصی، مثلاً شرک اور اس سے کم تر گناہ۔