وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور تو جہاں سے نکلے سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں کہیں ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو، تاکہ لوگوں کے پاس تمھارے خلاف کوئی حجت نہ رہے، سوائے ان کے جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے، سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
﴿ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّــۃٌ ڎ ﴾” اس لیے کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔“ یعنی ہم نے تمہارے لیے کعبہ شریف کو اس لیے قبلہ قرار دیا ہے، تاکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب کے لیے تم پر کوئی حجت نہ رہے، کیونکہ اگر بیت المقدس کو قبلہ کے طور پر باقی رکھا ہوتا تو یہ استقبال کعبہ کے خلاف حجت ہوتی، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستقل قبلہ، کعبہ یعنی بیت الحرام ہوگا اور مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ یہ عظیم گھر ان کے مفاخر میں شمار ہوتا ہے اور یہ ملت ابراہیم کا مرکز ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ شریف کو قبلہ نہیں بنائیں گے تو مشرکین کے پاس آپ کے خلاف حجت ہوگی۔ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملت ابراہیم پر ہونے کا کیسے دعویٰ کرتا ہے جبکہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کو قبلہ نہیں بنایا۔ پس بیت اللہ کو قبلہ بنانے سے اہل کتاب اور مشرکین دونوں پر حجت قائم ہوگئی اور آپ پر وہ جو حجت قا ئم کر سکتے تھے، وہ منقطع ہوگئی۔ ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ﴾ ” مگر ان میں جو ظالم ہیں۔“ یعنی ان میں جو کوئی دلیل دیتا ہے وہ اس بارے میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے اس کے پاس کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں سوائے ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی کے، لہٰذا آپ کے خلاف حجت قائم کرنے کی کوئی راہ نہیں۔ اسی طرح اس شبہ کی پروا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جسے یہ لوگ حجت کے طور پر وارد کرتے ہیں۔ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا جائے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْشَوْھُمْ﴾” تم ان سے مت ڈرو“ کیونکہ ان کی حجت باطل ہے اور باطل اپنے نام کی مانند بے کار اور فاسد ہے۔ باطل اور باطل پرست مدد اور تائید سے محروم ہیں۔ صاحب حق کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حق کا رعب اور عزت ہے۔ حق جس کے ساتھ ہے وہ اس کی خشیت کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خشیت کا حکم دیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ اس کی نافرمانی سے نہیں بچ سکتا اور نہ اس کی اطاعت کرسکتا ہے۔ مسلمانوں نے بیت اللہ کو قبلہ بنایا تو اس سے انہیں بہت بڑے فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے خوب خوب اشاعت کی اور اس بارے میں انہوں نے اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کردی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت بسط و شرح اور کامل طریقے سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور مختلف قسم کی تاکیدات سے اس کو موکد کیا جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوئی ہیں، مثلاً (1) استقبال کعبہ کا تین مرتبہ حکم دیا گیا ہے جبکہ صرف ایک ہی مرتبہ کافی تھا۔ (2) اس میں خصوصی بات یہ ہے کہ حکم یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے اور امت اس میں داخل ہے یا یہ حکم امت کے لیے عام ہے۔ اس آیت کریمہ میں خصوصی طور پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ﴾ اور امت کو اس آیت میں استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ﴾ (3) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام باطل دلائل کا رد کیا ہے جو کہ معاندین نے پیش کیے تھے اور ایک ایک شبہ کا ابطال کیا۔ جیسا کہ اس کی توضیح گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ (4) اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت امیدوں کو ختم کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل کتاب کے قبلے کی پیروی کریں گے۔ (5) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿ۭ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ایک عظیم سچے شخص کا خبر دینا ہی کافی ہوتا ہے مگر بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿’ۭ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ﴾’’یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ “ (6) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا اور وہ عالم الغیب ہے، کہ اہل کتاب کے ہاں استقبال کعبہ کے معاملہ کی صحت متحقق ہے مگر یہ لوگ علم رکھنے کے باوجود اس گواہی کو چھپاتے ہیں۔ جب بیت اللہ شریف کی طرف تحویل قبلہ ایک عظیم نعمت ہے اور اس امت پر اللہ تعالیٰ کا بے پایاں لطف و کرم ہے جو بڑھتا ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لیے کوئی کام مشروع کرتا ہے تو یہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ﴾یہ تحویل کا حکم اس لیے دیا گیا ہے ” تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں۔“ اصل نعمت تو دین کی ہدایت ہے جو وہ اپنا رسول بھیج کر اور اپنی کتاب نازل کر کے عطا کرتا ہے اس کے بعد دیگر تمام نعمتیں اس نعمت کی تکمیل کرتی ہیں۔ یہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حصر و شمار ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لے کر اس دنیائے فانی سے آپ کی رحلت تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں سے نوازتا رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو احوال اور نعمتیں عطا کیں اور اس نے آپ کی امت کو وہ کچھ دیا جس سے آپ پر اور آپ کی امت پر اتمام نعمت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ آپ پر نازل فرمائی ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾(المائدة: 3؍5) ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔ “ پس اللہ تعالیٰ ہی اپنے اس فضل و کرم پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس فضل و کرم پر اس کا شکرادا کرنا تو کجا ہم تو اس کو شمار تک نہیں کرسکتے۔ ﴿وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ﴾” اور تاکہ تم راہ راست پر چلو۔“ یعنی شاید کہ تم حق کو جانو اور پھر اس پر عمل کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ہدایت کے اسباب بے حد آسان فرما دیئے اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے بارے میں آگاہ فرما دیا اور ان کے لیے اس ہدایت کو پوری طرح واضح کردیا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل عناد کو حق کی مخالفت پر مقرر کردیتا ہے، چنانچہ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں، جس سے حق واضح، حق کی نشانیاں اور علامتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور باطل کا بطلان ثابت ہوجاتا ہے اور یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ باطل کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر باطل حق کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو تو بسا اوقات اکثر مخلوق پر باطل کا حال واضح نہ ہو۔ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر رات نہ ہوتی تو دن کی فضیلت کا اعتراف نہ ہوتا۔ اگر قبیح اور بدصورت نہ ہو تو خوبصورت کی فضیلت معلوم نہیں ہوسکتی، اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کے فوائد کو نہیں پہچانا جاسکتا، اگر باطل نہ ہو تو حق واضح طور پر ظاہر نہیں ہوسکتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔