كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ۗ أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ
جیسے وہ ان میں نہیں رہے تھے۔ سن لو! مدین کے لیے ہلاکت ہے، جیسے ثمود ہلاک ہوئے۔
﴿أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ ﴾ ” سنو، پھٹکار ہے مدین کے لئے“ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مدین کو ہلاک اور رسوا کیا ﴿كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ ﴾ ” جیسے پھٹکار ہوئی ثمود پر“ یعنی پھٹکار، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور ہلاکت میں دونوں قبیلے مشترک تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو، قوم کے ساتھ ان کے حسن گفتگو کی بنا پر ” خطیب الانبیاء“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قصہ سے بہت سے فوائد اور بہت سی عبرتیں مستنبط ہوتی ہیں۔ (١) کفار کو جس طرح اصول اسلام کے ذریعے سے مخاطب کیا جاتا ہے اور جس بنا پر ان کو عذاب دیا جاتا ہے، اسی طرح شرائع اسلام اور اس کی فروع میں بھی وہ مخاطب ہیں، کیونکہ جناب شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید اور ناپ تول کے پورے کرنے کی دعوت دی تھی اور مجموعی طور پر توحید اور ناپ تول کو پورا کرنے کے حکم کی عدم تعمیل پر وعید کو مترتب کیا۔ (٢) ناپ تول میں کمی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مرتکب کے بارے میں ڈر ہے کہ کہیں وہ عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ ناپ تول میں کمی کرنا لوگوں کا مال چوری کرنے کے مترادف ہے۔ جب ناپ تول کے ذریعے سے چوری کرنا عذاب کی وعید کا موجب ہے، تو جبر اور تغلب کے ذریعے سے لوگوں کے مال چوری کرنا بدرجہ اولیٰ وعید کا موجب ہے۔ (٣) عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے جو کوئی لوگوں کے مال کو کم کرکے خود اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کو اس کے مال میں کمی کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا۔ ناپ تول میں کمی اس کے رزق کے زوال کا سبب بنتی ہے جیسے ارشاد ہے : ﴿ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ ﴾ ” میں تمہیں آسودہ ھال دیکھ رہا ہوں“ اس لئے اپنے کرتوتوں کے ذریعے سے اس رزق کے زوال کا کا باعث نہ بنو۔ (٤) بندے پر واجب ہے کہ وہ اس رزق پر قناعت کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے، چنانچہ وہ حرام کو چھوڑ کر حلال پر اور حرام ذرائع اکتساب کو چھوڑ کر حلال ذرائع پر قناعت کرے اور یہ اس کے لئے بہتر ہے ﴿بَقِيَّتُ اللَّـهِ خَيْرٌ لَّكُمْ ﴾ ” اللہ کا عطا کیا ہوا نفع تمہارے لئے بہتر ہے۔“ حلال ذرائع اکتساب میں جو برکت اور اضافہ رزق ہے، وہ دنیا کی حرص کی خاطر حرام اسباب کسب اختیار کرنے میں نہیں۔ اس میں سراسر مال کا زوال اور برکت کی ضد ہے۔ (٥) یہ لوازم ایمان اور اس کے آثار میں سے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ عمل کو وجود ایمان پر مترتب کیا ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عمل کا وجود نہ ہو تو ایمان ناقص یا قطعی طور پر معدوم ہے۔ (٦) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیائے سابقین کی شریعت میں نماز مشروع تھی، نیز یہ کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے۔ حتیٰ کہ کفار کے نزدیک بھی نماز کی افضیلت اور نماز کا تمام اعمال پر مقدم ہونا متحقق ہے۔ نیز ان کے ہاں یہ بات بھی متحقق ہے کہ نماز فواحش اور منکرات سے روکتی ہے اور نماز ایمان اور ان شرائع کی میزان ہے، نماز کو مسنون طریقے سے ادا کرنے سے بندہ مومن کے احوال کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز کی عدم ادائیگی سے اس کے دینی احوال میں خلل واقع ہوتا ہے۔ (٧) وہ مال جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کر رکھا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مال کا مالک بنا رکھا ہے تاہم انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرے، کیونکہ یہ مال اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، لہٰذا اس پر فرض ہے کہ وہ اس میں سے لوگوں کے حقوق ادا کرکے اللہ تعالیٰ کے حق کو قائم کرے اور ان ذرائع اکتساب کو اختیار کرنے سے باز رہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ اس کے برعکس کفار اور ان سے مشابہت رکھنے والے دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مال کے خود مالک ہیں اور وہ جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں خواہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو یا مخالف۔ (٨) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ داعی کی دعوت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ خود اس کام پر عمل کرنے میں سبقت کرے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور جس کام سے وہ لوگوں کو روکتا ہے سب سے پہلے وہ خود اس کام سے رک جائے، جیسا کہ جناب شعیب علیہ السلام نے فرمایا : ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾ ” میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں جن باتوں سے روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴾ ” اے مومنو ! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ “ (٩)تمام انبیاء و مرسلین کا وظیفہ اور ان کی سنت و ملت یہ ہے کہ حسب امکان اور مقدور بھر مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کے ذریعے سے لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں اور استطاعت کے مطابق مفاسد کو دور یا کم کرتے ہیں اور مصالح خاصہ کی رعایت رکھتے ہیں۔۔۔ اور حقیقی مصلحت وہ ہے جس سے بندوں کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے اور جس سے ان کے دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں۔ (٠١) جو کوئی مقدور بھر اصلاح کی کوشش کرتا ہے، تو وہ ایسے کسی فعل کے نہ کرنے پر قابل ملامت اور قابل مذمت نہیں جس کے کرنے کی وہ قدرت اور استطاعت نہیں رکھتا۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرے۔ (١١) بندہ مومن کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ اپنے رب پر بھروسہ کرے، اسی سے مدد طلب کرے اور اسی سے توفیق کا طلب گا رہے۔ جب اسے کوئی نیک توفیق حاصل ہوجائے تو اسے توفیق عطا کرنے والی ہستی کی طرف منسوب کرے اور خود پسندی کا شکار نہ ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ (٢١) اسم سابقہ پر جو تباہی نازل ہوئی اور عذاب کے ذریعے سے ان کو جو پکڑا گیا اس میں بندوں کے لئے ترہیب ہے اور یہ نہایت مناسب ہے کہ وعظ و نصیحت کے دوران گزشتہ قوموں کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں مجرموں پر عذاب نازل کیا گیا۔۔۔ اور اسی طرح یہ بھی مناسب ہے کہ تقویٰ کی ترغیب کے لئے اہل تقویٰ کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اکرام سے نوازا۔ (٣١)گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس کے تمام گناہوں سے در گزر کرکے اسے معاف کردیا گیا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور اس شخص کا قول قابل اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے ” توبہ کرنے والا جب توبہ کرتا ہے تو اس کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کو مغفرت اور عفو سے نواز دیا جائے اور رہا اللہ تعالیٰ کی محبت اور مودت کا واپس لوٹنا تو اللہ تعالیٰ کی محبت دوبارہ نہیں آتی“۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ ﴾ ” اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور اس کی طرف لوٹ آؤ بے شک میرا رب بہت ہی رحم کرنے والا اور اپنی مخلوق سے بہت محبت رکھتا ہے۔ “ (٤١) اللہ تبارک وتعالیٰ بہت سے اسباب کے ذریعے سے اہل ایمان کی مدافعت کرتا ہے بعض اسباب کا ان کو علم ہوتا ہے اور بعض اسباب کا ان کو بالکل علم نہیں ہوتا۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کے قبیلے اور اہل وطن کے ذریعے سے ان کی مدافعت کرتا ہے جیسے شعیب علیہ السلام کو ان کے قبیلے کے سبب سے رجم ہونے سے بچایا۔ اس قسم کے روابط کے لئے جن کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور ان کی حفاظت کا حصول مقصود ہو، کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ایسی کوشش لازم ہے کیونکہ مقدور بھر اور حسب امکان، اصلاح مطلوب ہے۔ لہٰذا اس اصول کو مد نظر رکھ کر کفار کی سلطنت میں رہنے والے مسلمان اگر اسی قسم کی کوشش کریں اور نظام حکومت کو جمہوری اصولوں پر چلانے کے لئے کام کریں جس میں افرادیا جماعتوں کے لئے ممکن ہو کہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی حقوق کی حفاظت کرسکیں، تو یہ اس صورتحال سے بہتر ہے جس میں مسلمان کافر ریاست کے مطیع ہوں اور ریاست ان کے دینی اور دنیاوی حقوق کے بارے میں من مانے فیصلے کرے، مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے اور کفار کی خدمت کے لئے ان کو معمولی درجے کے کارکن اور خدام بنا ڈالے۔ البتہ اگر ریاست میں مسلمانوں کا اقتدار اور ان کی حکومت ممکن ہو تو اس حکومت کا قیام لازم ہے، لیکن اگر اقتدار کا یہ مرتبہ حاصل نہ ہوسکے، تو اس مرتبے کا حصول جس میں دینی اور دنیاوی مصالح کی حفاظت ہو، مقدم ہے۔ واللہ اعلم۔