وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے، انھوں نے سلام کہا، اس نے کہا سلام ہو، پھر دیر نہیں کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔
﴿وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا ﴾ ” تحقیق آئے ہمارے مکرم فرشتے“ ہمارے قاصد ﴿إِبْرَاهِيمَ ﴾ ” ابراہیم )علیہ السلام( کے پاس“ ﴿بِالْبُشْرَىٰ ﴾ ” بشارت کے ساتھ“۔ یعنی بیٹے کی بشارت کے ساتھ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہو کر جائیں اور ان کو اسحق کی خوشخبری دیتے جائیں، تو جب فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے ﴿قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ ﴾ ” تو انہوں نے سلام کیا‘ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔“ یعنی فرشتوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو اور ابراہیم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ اس آیت مقدسہ میں سلام کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ملت ابراہیمی میں کلام کرنے سے پہلے سلام کا طریقہ ہمیشہ سے رہا ہے اور مناسب یہ ہے کہ سلام کا جواب سلام کرنے سے زیادہ بلیغ ہو، کیونکہ ان کا سلام جملہ فعلیہ کے ذریعے سے تجدد پر دلالت کرتا ہے اور جملہ اسمیہ کے ذریعے سے ان کے سلام کا جواب ثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے، دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے جیسا کہ عربی زبان کے علم میں معروف ہے۔ ﴿فَمَا لَبِثَ ﴾ ” انہوں نے کچھ تاخیر نہ کی۔“ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے تاخیر نہ کی ﴿أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ﴾ ” اور ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔“ یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اپنے مہمانوں کے لئے ایک موٹا تازہ اور گرم پتھر پر بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور ان کے سامنے پیش کیا اور بولے : ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ ﴾(الذاریات:51؍27) ” تم کھاتے کیوں نہیں؟