قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ
اس نے کہا میں عنقریب کسی پہاڑ کی طرف پناہ لے لوں گا، جو مجھے پانی سے بچالے گا۔ کہا آج اللہ کے فیصلے سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی تو وہ غرق کیے گئے لوگوں میں سے ہوگیا۔
﴿ قَالَ ﴾ ” اس نے کہا۔“ یعنی نوح علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے باپ کے قول ” عذاب سے صرف وہی نجات پائے گا جو کشتی میں سوار ہوگا۔۔۔۔۔۔“ کی تکذیب کرتے ہوئے کہا : ﴿سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ﴾ ” میں پہاڑ سے جالگوں گا کہ وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔“ یعنی میں کسی پہاڑ پر چڑھ کر پانی سے محفوظ ہوجاؤں گا۔ ﴿ قَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے کہا : ﴿لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ﴾ ” آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں، مگر جس پر وہی رحم کرے“ کوئی پہاڑ وغیرہ کسی کو بچا نہیں سکے گا۔ اگر کوئی اس پانی سے بچنے کے لئے ممکن حد تک بڑے سے بڑے سبب اختیار کرلے تب بھی اگر اللہ تعالیٰ اسے نہ بچائے تو وہ بچ نہیں سکتا۔ ﴿وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ﴾ ” اور حائل ہوگئی دونوں کے درمیان موج، پس ہوگیا وہ“ یعنی بیٹا ﴿مِنَ الْمُغْرَقِينَ﴾ ” ڈوبنے والوں میں۔ “