وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ اور یقیناً اگر تو کہے کہ بے شک تم موت کے بعد اٹھائے جانے والے ہو تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ضرور ہی کہیں گے یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اسی نے ﴿خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ ” پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں“ پہلا دن اتوار اور چھٹا دن جمعہ تھا اور جس وقت اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ﴿وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ﴾ ’’اس کا عرش پانی پر تھا“ ساتویں آسمان کے اوپر۔ پس آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرنے کے بعد اپنے عرش پر مستوی ہوا، وہ تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اور احکام قدریہ اور احکام شرعیہ میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اسی لئے فرمایا ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ ” تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے“۔ تاکہ وہ اپنے اوامر و نو اہی کے ذریعے سے تمہارا امتحان لے اور دیکھے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ” سب سے اچھا عمل وہ ہے جو سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح ہو۔“ ان سے پوچھا گیا ” سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح سے کیا مراد ہے؟“ فرمایا : ” اگر عمل خالص ہو مگر صحیح نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا اور اگر عمل صحیح ہو مگر خالص نہ ہو تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول نہیں۔ صرف وہی عمل قابل قبول ہوتا ہے جو خالص بھی ہو اور صحیح بھی ہو“۔ خالص عمل وہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اور صحیح عمل وہ ہے جس میں شریعت اور سنت کی پیروی کی گئی ہو اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات:51؍56)” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾(الطلاق :65؍12)اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ان کی مانند سات زمینیں اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کا حکم اترتا رہتا ہے، تاکہ تم لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ “ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت اور اپنے اسماء و صفات کی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے اور اسی چیز کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور اس ذمہ داری کو ادا کردیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا وہ فلاح پانے والوں میں سے ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعراض کیا، تو یہی گھاٹے میں پڑنے والے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ایک جگہ جمع کرے گا اور پھر ان کو اپنے اوامراونواہی کی بنیاد پر جزا دے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جزا کے بارے میں مشرکین کی تکذیب کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” اور اگر آپ کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے“۔ یعنی اگر آپ ان سے کہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بارے میں ان کو آگاہ کریں تو یہ آپ کی تصدیق نہیں کریں گے، بلکہ وہ نہایت شدت سے آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ کی دعوت میں عیب چینی کریں گے اور کہیں گے ﴿ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” یہ تو کھلے جادو کے علاوہ کچھ نہیں“ مگر آگاہ رہو کہ یہ واضح حق ہے۔