سورة البقرة - آیت 139

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا رب اور تمھارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال اور ہم اسی کے لیے خالص کرنے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

(مَحَاجَۃٌ) دو یا دوسے زائد افراد کے درمیان اس مباحثہ اور مجادلہ کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق اختلافی مسائل سے ہوتا ہے، ہر فریق اپنے مدمقابل کے خلاف اپنی بات میں کامیابی حاصل کرنا اور مدمقابل کے قول کا ابطال کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے دونوں ہی دلیل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں مطلوب یہ ہے کہ یہ مباحثہ نہایت احسن طریقے سے ہو۔ قریب ترین راستے کے ذریعے سے گمراہ کو حق کی طرف لوٹایا جائے۔ فریق مخالف کے سامنے دلیل بیان کر کے حق اور باطل کو واضح کردیا جائے۔ اگر آپ ان مذکورہ امور سے باہر نکل جائیں تو مباحثہ نہیں بلکہ جھگڑا کہلائے گا، یہ ایک مخاصمت ہوگی جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور اس جھگڑے اور مخاصمت سے برائی جنم لیتی ہے۔ پس اہل کتاب اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ مسلمانوں کی نسبت، وہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ ان کا محض دعویٰ تھا جو دلیل اور برہان کا محتاج تھا۔۔۔ جب تمام لوگوں کا رب ایک ہے تمہارا کوئی اور رب نہیں۔ ہم اور تم میں سے ہر شخص کا اپنا اپنا عمل ہے، تو اعمال بجا لانے میں ہم اور آپ برابر ہیں۔ پس یہ چیز اس بات کی ہرگز موجب نہیں کہ ہم میں سے کوئی، دوسرے سے زیادہ، اللہ تعالیٰ کے قریب ہے۔ کیونکہ کسی مشترک چیز میں بغیر کسی مؤثر فرق کے تفریق کرنا محض باطل دعویٰ ایک جیسی دو چیزوں کے مابین تفریق پیدا کرنا اور کھلا انکار حق ہے۔ فضیلت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اعمال کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور یہ حالت صرف اہل ایمان کا وصف ہے اور اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ اہل ایمان ہی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے کہ اخلاص ہی نجات کا راستہ ہے۔ یہی وہ حقیقی اوصاف ہیں جن سے اولیاء الرحمٰن اور اولیاء الشیطان کے مابین فرق ہوتا ہے جنہیں تمام عقلمند لوگ تسلیم کرتے ہیں اور جاہل منکر حق کے سوا کوئی اس میں نزاع پیدا نہیں کرتا۔ اس آیت کریمہ میں نہایت لطیف طور پر طریق مباحثہ کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ تمام امور اس اصول پر مبنی ہیں کہ دو متماثل اشیاء ایک جیسی ہوتی ہیں اور دو مختلف اشیاء میں فرق ہوتا ہے۔