سورة یونس - آیت 68

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ وہ پاک ہے، وہی بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، تمھارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ کہتے ہو جو نہیں جانتے؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ رب العالمین کے بارے میں مشرکین کی بہتان طرازی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا﴾ ” انہوں نے کہا، ٹھہرالی ہے اللہ نے اولاد“ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اس سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿سُبْحَانَهُ﴾ ” وہ پاک ہے“ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی طرف جو نقائص منسوب کرتے ہیں وہ ان سے بلند و برتر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں : (1) ﴿هُوَ الْغَنِيُّ﴾ ” وہ بے نیاز ہے۔“ یعنی عناد (بے نیازی) اسی میں منحصر ہے اور عناد کی تمام اقسام کا وہی مالک ہے۔ وہ غنی ہے جو ہر پہلو، ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے نائے کامل کا مالک ہے۔ جب وہ ہر لحاظ سے غنی ہے تب وہ کس لئے بیٹا بنائے گا؟ کیس اس وجہ سے کہ وہ بیٹے کا محتاج ہے؟ یہ تو اس کے عناد اور بے نیازی کے منافی ہے۔ کوئی شخص صرف ا پنے عناد میں نقص کی بنا پر بیٹا بناتا ہے۔ (2) دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔“ یہ عام اور جامع کلمہ ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات اس کی ملکیت سے خارج نہیں‘ تمام موجودات اس کی مخلوق‘ اس کے بندے اور مملوک ہیں اور یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ یہ وصف عام اس بات کے منافی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، کیونکہ بیٹا اپنے باپ کی جنس سے ہوگا جو مخلوق ہوگا نہ مملوک۔ پس آسمانوں اور زمین کا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہونا ولادت (اولاد ہونے) کے منافی ہے۔ (3) تیسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَـٰذَا﴾ ” تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں“ یعنی تمہارے پاس تمہارے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ اسے ضرور پیش کرتے۔ جب انہیں دلیل پیش کرنے کے لئے کہا گیا اور وہ دلیل قائم کرنے سے عاجز آگئے، تو ان کے دعوے کا بطلان ثابت ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان کا قول بلا علم ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ’’کیا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگات ہو جو تم نہیں جانتے“ پس بلا علم اللہ تعالیٰ کی طرف بات منسوب کرنا سب سے بڑا حرام ہے۔