يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
اے لوگو! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سرا سر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کتاب کریم کے اوصاف حسنہ، جو بندوں کے لئے ضروری ہیں، بیان کر کے اس کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی“ یعنی وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے اور وہ تمہیں ان اعمال سے ڈراتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے موجب اور اس کے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ ان اعمال کے اثرات اور مفاسد بیان کرکے تمہیں ان سے بچاتا ہے۔ ﴿وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ﴾ ” اور شفا دلوں کے روگ کی“ اور وہ یہی قرآن ہے جو امراض قلب، مثلاً امراض شہوات، جو شریعت کی اطاعت سے روکتے ہیں اور امراض شبہات، جو علم یقینی میں قادح ہیں۔۔۔۔ کے لئے شفا ہے۔ اس کتاب کریم کے اندر مواعظ، ترغیب و ترہیب اور وعد و وعید کے جو مضامین ہیں وہ بندے کے لئے رغبت و رہبت کے موجب ہیں۔ جب آپ اس کتاب کریم میں بھلائی کی طرف رغبت، برائی سے ڈر اور قرآن کے معانی میں بتکرار ایسا اسلوب پاتے ہیں‘ تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے مراد کو نفس کی مراد پر مقدم رکھنے کی موجب بنتی ہے اور بندہ مومن کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی رضا شہوت نفس سے زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔ اسی طرح اس کے اندر جو دلائل وبراہین ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ذکر کیا ہے اور انہیں بہترین اسلوب میں بیان کیا ہے جو ایسے شبہات کو زائل کردیتا ہے جو حق میں قادح ہیں اور اس کے ذریعے سے قلب یقین کے بلند ترین مراتب پر پہنچ جاتا ہے اور جب قلب اپنی بیماری سے صحت یاب ہوجاتا ہے اور وہ لباس عافیت کو زیب تن کرلیتا ہے، تو جوارح اس کی پیروی کرتے ہیں اس لئے کہ جوارح، دل کی درستی سے درست رہتے ہیں اگر دل فاسد ہوجاتا ہے تو جوارح بھی خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت۔“ پس ہدایت حق کے علم اور اس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اور ”رحمت“ سے مراد وہ بھلائی، احسان اور دنیاوی و اخروی ثواب ہے جو ہدایت یافتہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ تب معلوم ہوا کہ ہدایت جلیل ترین وسیلہ اور رحمت کامل ترین مقصود و مطلوب ہے۔ اس کی طرف صرف اہل ایمان ہی کو راہ نمائی عطا ہوتی ہے اور اہل ایمان ہی رحمت سے نوازے جاتے ہیں۔ جب بندہ مومن کو ہدایت حاصل ہوتی ہے اور اسے ہدایت سے جنم لینے والی رحمت سے نواز دیا جاتا ہے تو وہ سعادت، فلاح، نفع، کامیابی، فرحت اور سرور کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خوش ہونے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ کے فضل کے ساتھ“ فضل سے مراد قرآن ہے جو سب سے بڑی نعمت، احسان اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑافضل ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ ﴿وَبِرَحْمَتِهِ﴾ ” اور اس کی مہربانی کے ساتھ“ یعنی دین، ایمان، اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت اور اس کی معرفت۔