بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا انہوں نے احاطہ نہیں کیا، حالانکہ اس کی اصل حقیقت ابھی ان کے پاس نہیں آئی تھی۔ اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے۔ سو دیکھ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔
وہ چیز جس نے ان کو قرآن، جو حق پر مشتمل ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی حق نہیں، کی تکذیب پر آمادہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس کا علم نہیں رکھتے۔ اگر وہ اس کا علم رکھتے ہوتے اور اگر انہوں نے اس کو سمجھ لیا ہوتا جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے، تو وہ ضرور اس کی حقانیت کی تصدیق کرتے۔ اسی طرح اب تک ان کے پاس ان کے ساتھ کئے ہوئے اس وعدے کی حقیقت، کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرے گا اور ان کو سزا دے گا، نہیں آٗئی۔ اور یہ تکذیب جو ان کی طرف سے صادر ہوئی ہے ان سے پہلے لوگوں کی طرف سے صادر ہونے والی تکذیب کی جنس سے ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ﴾ ” اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پس دیکھو، کیسا انجام ظالموں کا“ اس سے مراد وہ عذاب ہے جس نے ان میں سے کوئی باقی نہ چھوڑا، لہٰذا ان لوگوں کو تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ کہیں ان پر بھی وہ عذاب نازل ہوجائے جو انبیاء و رسل کو جھٹلانے والی اور ہلاک ہونے والی قوموں پر نازل ہوا۔ یہ آیت کریمہ تمام امور میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور اس سے یہ راہ نمائی بھی حاصل ہوتی ہے کہ انسان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی چیز کے بارے میں پوری حقیقت حال معلوم کئے بغیر اسے قبول یارد کر دے۔