إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ
بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا﴾ ” جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہے، بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں۔“ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہو گے۔ ﴿ وَاطْمَأَنُّوا بِهَا﴾ ” اور اسی پر مطمئن ہوگئے“ یعنی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لئے کوشاں رہے اس کی لذات و شہوات پر ٹوٹ پڑے۔ دنیا انہیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی، انہوں نے اسے حاصل کرلیا۔ دنیا کی چمک انہیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا، ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتی رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزر گاہ نہیں جہاں سے مسافر ز ادراہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے والی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انہی کی طرف لپکتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔“ پس یہ آیات قرآنی اور آیات نفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے رو گردانی درحقیقت مدلول مقصود سے روگردانی اور غفلت کومستلزم ہے۔