مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقیناً وہ جہنمی ہیں۔
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے لائق ہے نہ ان کے لئے زیبا ہے۔ ﴿أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ﴾ ” کہ وہ ان لوگوں کے لئے استغفار کریں جنہوں نے (کفر یا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیر اللہ کو) شریک کیا۔“ ﴿وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ ” اگرچہ وہ رشتے دار ہوں، اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں“ کیونکہ اس حال میں ان کے لئے بخشش کی دعا کرنا غلط اور ان کے لئے غیر مفید ہے، اس لئے یہ استغفار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کی شان کے لائق ہیں،کیونکہ جب وہ شرک کی حالت میں مر گئے یا یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ وہ شرک کی حالت میں مریں گے تو ان پر عذاب اور جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہوگیا کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت اور ان کی بخشش کی دعا کرنے والے کی دعا ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان پر واجب ہے کہ اپنے رب کی رضا اور ناراضی کے بارے میں اس کی موافقت کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا ہے اس سے موالات رکھیں اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دشمن قرار دیا ہے اس سے عداوت رکھیں اور جس شخص کے بارے میں یہ واضح ہوچکا ہو کہ وہ جہنمی ہے اس کے لئے استغفار کرنا اس کے منافی اور متناقض ہے۔ اگر اللہ رحمٰن کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لئے استغفار کیا تھا ﴿عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ﴾ تو ایک وعدے کی بنا پر تھا جو انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان الفاظ میں کیا تھا ﴿سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴾ (مریم : 19؍47) ”میں اپنے پروردگار سے آپ کے لئے ضرور دعا کروں گا کہ وہ آپ کو بخش دے کیونکہ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔“ دا کا یہ وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کیا تھا جب آنجناب علیہ السلام کو اپنے باپ کے انجام کا علم ہوا تھا۔