وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اور یقیناً وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا ارادہ نہیں کیا اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔
اہل قبا میں سے کچھ منافقین نے مسجد قبا کے پہلو میں ایک مسجد بنائی اس مسجد کی تعمیر سے ان کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور ان کے درمیان اختلاف اور افتراق پیدا کرنا تھا، نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف تخریب کاری کرنے والوں کے لئے بوقت ضرورت محفوظ پناہ گاہ تیار کرنا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رسوائی کو بیان کرتے ہوئے ان کا بھید ظاہر کردیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے کے لئے“ یعنی اہل ایمان اور ان کی اس مسجد کو نقصان پہنچانے کی خاطر جس میں اہل ایمان جمع ہو کر نماز پڑھتے تھے ﴿ وَكُفْرًا﴾ ” اور کفر کے لئے“ اس مسجد کی تعمیر میں ان کا مقصد کفر تھا جبکہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا مقصد ایمان تھا۔ ﴿وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے“ تاکہ اہل ایمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر افتراق کا شکار ہوجائیں اور آپس میں اختلاف کرنے لگیں ﴿وَإِرْصَادًا﴾ ” اور گھات لگانے کے لئے“ یعنی تیار کرنے کے لئے ﴿ لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ﴾ ” اس شخص کو جو لڑ رہا ہے اللہ اور اس کے رسول سے“ پہلے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے والوں کی اعانت کے لئے، جن کی جنگ اور تخریب کاری پہلے ہی سے جاری اور جن کی عداوت بہت شدید تھی، مثلاً ابو عامر راہب کی عداوت اور اس کی سازشیں۔ ابو عامر اہل مدینہ میں سے تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اس نے آپ کا انکار کردیا حالانکہ وہ زمانہ جاہلیت میں ایک عبادت گزار شخص تھا۔ وہ مشرکین کے پاس چلا گیا، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ میں مشرکین سے مدد حاصل کرے مگر اسے اپنا مقصد حاصل نہ ہوا، چنانچہ وہ اس خیال سے قیصر روم کے پاس چلا گیا کہ وہ اس کی مدد کرے گا۔۔۔۔ مگر وہ لعین راستے ہی میں مر گیا۔ اس نے اور منافقین نے ایک دوسرے کی مدد کا وعدہ کر رکھا تھا، منافقین نے اس کی سازشوں کے لئے پناہ گاہ کے طور پر مسجد ضرار تعمیر کروائی تھی، چنانچہ اس بارے میں وحی نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد کو منہدم کرنے اور اس کو جلانے کے لئے کسی کو بھیجا۔ چنانچہ اس مسجد کو منہدم کر کے جلا دیا گیا اور اس کے بعد مسجد ضرار کی جگہ کوڑا ڈالنے کی جگہ بن گئی۔ اس مسجد کی تعمیر میں پنہاں ان کے برے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا﴾ ” اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے نہیں ارادہ کیا“ یعنی اس مسجد کی تعمیر سے ﴿إِلَّا الْحُسْنَىٰ﴾ ” مگر بھلائی ہی کا“ یعنی کمزور، معذور اور نابینا اہل ایمان کے ساتھ بھلائی کرنا مقصود ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴾ ” اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔‘‘ پس ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی گواہی ان کے حلف سے زیادہ معتبر ہے۔