يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
تمھارے لیے قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے راضی ہوجاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہوجاؤ تو بے شک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ﴾ ” وہ قسمیں کھائیں گے تمہارے لئے، تاکہ تم ان سے راضی ہوجائے“ یعنی وہ تم سے یہ آخری مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مجرد اعراض نہیں چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ گویا کہ انہوں نے کوئی کوتاہی کی ہی نہیں ﴿فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” لیکن اگر تم ان سے خوش ہوجاؤ گے تو اللہ تو نافرمان لوگوں سے خوش نہیں ہوتا۔“ یعنی، اے مومنو ! تمہارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان لوگوں پر رضا مندی کا اظہار کرو جن پر اللہ تعالیٰ راضی نہیں بلکہ تم پر واجب ہے کہ تم اپنے رب کی رضا اور ناراضی میں اس کی موافقت کرو۔ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمایا ہے : ﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” بے شک اللہ فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا“ اور یہ نہیں فرمایا : ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنْهُمْ﴾ ” ان سے راضی نہیں ہوتا“ تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اگر یہ یا کوئی اور جب بھی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور ان پر راضی ہوجاتا ہے، لیکن جب تک وہ اپنے فسق پر جمے رہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہوتا’ کیونکہ اس کی رضا کا مانع موجود ہے...... اور وہ ہے ان کا ان امور سے باہر نکلنا جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں مثلاً ایمان اور اطاعت اور ایسے امور میں داخل ہونا جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں مثلاً شرک، نفاق اور نافرمانی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی عذر کے بغیر جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والے منافقین جب اہل ایمان کے سامنے عذر پیش کرتے ہیں اور وہ وو سمجھتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے میں ان کے پاس عذر تھا تو وہ چاہتے ہیں کہ تم ان کے معاملے کو نظر انداز کر کے ان سے راضی رہو اور ان کا عذر قبول کرلو۔ رہا ان کا عذر قبول کرنا اور ان سے راضی ہونا تو اس میں ان سے کوئی محبت نہیں اور نہ ان کی کوئی تکریم ہے۔ رہا ان سے اعراض کرنا تو اہل ایمان ان سے اس طرح اعراض کیا کرتے تھے جس طرح ناپاک اور ردی امور سے اعراض کیا جاتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قَدْ نَبَّأَنَا اللَّـهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ﴾ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کا اثبات ہوتا ہے اور اسی آیت کریمہ میں اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَسَيَرَى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ﴾ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات بھی ہوتا ہے جو اس کی مشیت اور قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے عمل کو اس کے واقع ہونے کے بعد دیکھے گا۔ ان آیات کریمہ میں نیکوکاروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور فاسقین کے ساتھ ناراضی اور غصے کا اثبات ہوتا ہے۔