سورة التوبہ - آیت 90

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بدویوں میں سے بہانے بنانے والے آئے، تاکہ انھیں اجازت دی جائے اور وہ لوگ بیٹھ رہے جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا۔ ان میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، جلد ہی درد ناک عذاب پہنچے گا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ ﴾ ” اور آئے بہانے کرنے والے گنوار، تاکہ ان کو رخصت مل جائے“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے سستی کی اور جہاد کے لئے نکلنے سے قاصر رہے، اس لئے آئے کہ انہیں ترک جہاد کی اجازت مل جائے۔ انہیں اپنی جفا، عدم حیا اور اپنے کمزور ایمان کی بنا پر معذرت کرنے کی بھی پروا نہیں۔۔۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا، انہوں نے اعتذار کو بالکل ہی ترک کردیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿الْمُعَذِّرُونَ ﴾ ” عذر کرنے والے“ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو کوئی حقیقی عذر رکھتے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تاکہ آپ ان کی معذرت قبول فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ عذر پیش کرنے والے کا عذر قبول فرما لیا کرتے تھے۔ ﴿وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ بولا اللہ اور اس کے رسول سے“ یعنی جنہوں نے اپنے دعوائے ایمان میں، جو جہاد کے لئے نکلنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ان کے عمل نہ کرنے میں، اللہ اور رسول سے جھوٹ بولا۔ پھر ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ  ﴾ ” اب پہنچے گا ان کو جو کافر ہیں ان میں درد ناک عذاب“ دنیا و آخرت میں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے معذرت پیش کرنے والوں کا ذکر فرمایا۔ ان کی دو قسمیں ہیں : (١)جو شرعی طور پر معذور ہیں۔ (٢) جو شرعی طور پر غیر معذور ہیں۔