لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
اگر وہ تم میں نکلتے تو خرابی کے سوا تم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور ضرور تمھارے درمیان (گھوڑے) دوڑاتے، اس حال میں کہ تم میں فتنہ تلاش کرتے، اور تم میں کچھ ان کی باتیں کان لگا کر سننے والے ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا ﴾ ” اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے نقصان ہی میں اضافہ کرتے“ ( خَبَالًا ) یعنی ” نقصان“﴿ وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ ﴾ ” اور گھوڑے دوڑاتے تمہارے درمیان“ یعنی تمہارے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے اور تمہاری متحدہ جماعت میں تفرقہ پیدا کرتے۔ ﴿يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ ﴾ ” بگاڑ کرانے کی تلاش میں“ یعنی وہ تمہارے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے اور عداوت پیدا کرنے کے بہت حریص ہیں۔ ﴿وَفِيكُمْ﴾ ” اور تمہارے اندر“ ضعیف العقل لوگ موجود ہیں۔ جو ﴿سَمَّاعُونَ لَهُمْ ﴾ ” جاسوسی کرتے ہیں ان کے لئے“ یعنی ان کے دھوکے میں آ کر ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ پس جب وہ تمہیں تنہا چھوڑ دینے، تمہارے درمیان فتنہ ڈالنے اور تمہیں تمہارے دشمنوں کے خلاف لڑنے سے باز رکھنے کے بہت حریص ہیں اور تم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کی بات کو قبول کرتے ہیں اور ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں، تو کیا آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اگر وہ جہاد کے لئے اہل ایمان کے ساتھ نکلتے تو انہیں کتنا زیادہ نقصان پہنچتا؟ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت کتنی کامل ہے کہ اس نے ان کو اس سے باز رکھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے ان کے ساتھ جہاد کے لئے نکلنے سے ان کو روک دیا، تاکہ وہ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں جس سے ان کو کوئی فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچتا۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ﴾ ” اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔“ پس وہ اپنے بندوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ کیسے ان کی فتنہ پردازی سے بچیں، نیز وہ ان مفاسد کو واضح کرتا ہے جو ان کے ساتھ میل جول سے پیدا ہوتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ پہلے بھی ان کی شر انگیزی ظاہر ہوچکی ہے۔