يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلے ہیں۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ﴾ (آل عمران:3؍ 103) ” اور اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہوئی، یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پس اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ ﴾ ” اے نبی اللہ آپ کو کافی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے ﴿وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور آپ کے متبعین اہل ایمان کے لئے (بھی) کافی ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لئے، جو اس کے رسول کے اطاعت گزار ہیں، کافی ہونے کا اور ان کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت کا وعدہ ہے۔ جب انہوں نے ایمان اور اتباع رسول کے سبب کو اختیار کیا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دین و دنیا کی پریشانیوں سے ان کے لئے کافی ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کی کفایت تو صرف اپنی شرط کے معدوم ہونے پر معدوم ہوتی ہے۔