فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
پس اگر کبھی تو انھیں لڑائی میں پا ہی لے تو ان (پر کاری ضرب) کے ساتھ ان لوگوں کو بھگا دے جو ان کے پیچھے ہیں، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
اسی لئے فرمایا : ﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ ﴾ ”پس جب تم ان کو حالت جنگ میں پاؤ‘‘ جب کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد و میثاق نہ ہو۔ ﴿ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ ﴾ ” تو ان کو ایسی سزا دو کہ دیکھ کر بھاگ جائیں ان کے پچھلے“ یعنی ان کے ذریعے سے دوسروں کو سبق سکھا دیں اور ان کو ایسی سزا دیں کہ وہ بعد میں آنے والوں کے لئے نشان بن جائیں۔ ﴿لَعَلَّهُمْ ﴾ ” شاید کہ وہ“ یعنی بعد میں آنے والے ﴿يَذَّكَّرُونَ ﴾ ” نصیحت پکڑیں۔“ ان کے کرتوتوں سے نصیحت پکڑیں تاکہ ان پر بھی وہی عذاب نازل نہ ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ یہ سزاؤں اور حدود کے فوائد ہیں جو گناہوں پر مترتب ہوتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے زجر و تو بیخ کا سبب ہیں، جنہوں نے گناہ نہیں کئے بلکہ ان کے لئے بھی جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا تاکہ وہ گناہ کا اعادہ نہ کریں۔ اس عقوبت کے لئے حالت جنگ کی قید لگانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کافر۔۔۔ اگرچہ بہت زیادہ خیانت کا ارتکاب کرنے والا بد عہد ہو۔۔۔ جب اس سے معاہدۂ امن کرلیا جائے، تو اس عہد میں خیانت کرنا اور اسے عقوبت دینا جائز نہیں۔