إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرَّ هَٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ۗ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں ایک بیماری تھی، کہہ رہے تھے ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکا دیا ہے۔ اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
﴿إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” اس وقت منافع اور جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے“ یعنی جب اہل ایمان اپنی قلت اور مشرکین کی کثرت کے باوجود لڑائی کے لئے نکلے تو ضعیف الایمان لوگ جن کے دلوں میں شک و شبہ تھا، اہل ایمان سے کہنے لگے ﴿غَرَّ هَـٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ﴾ ”ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ یعنی جس دین پر یہ کاربند ہیں اس دین نے انہیں اس ہلاکت انگیز مقام پر پہنچا دیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہے۔ یہ بات وہ اہل ایمان کو حقیر اور کم عقل سمجھتے ہوئے کہتے تھے، حالانکہ وہ خود۔۔۔ اللہ کی قسم۔۔۔ کم عقل اور بے سمجھ تھے، کیونکہ جذبہ ایمان مومن کو ایسے ہولناک مقامات میں کود جانے پر آمادہ کرتا ہے جہاں بڑے بڑے لشکر آگے بڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا مومن جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں۔ اگر تم لوگ کسی شخص کو ذرہ بھر فائدہ پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوجائیں تو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر اس کو نقصان پہنچانے پر اکٹھے ہوجائیں تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر صرف وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ مومن جانتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے قضا و قدر میں حکمت والا اور نہایت رحمت کرنے والا ہے اس لئے جب وہ کوئی اقدام کرتا ہے تو وہ (مخالفین کی) کثرت اور قوت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ اطمینان قلب کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے۔ وہ گھبراتا ہے نہ بزدلی دکھاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ ﴾ ” اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ غالب ہے“ کوئی طاقت اس کی طاقت پر غالب نہیں آسکتی۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ ” وہ حکمت والا ہے“ یعنی وہ اپنی قضا و قدر میں نہایت حکمت والا ہے