وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو یقیناً اس جیسا ہم بھی کہہ دیں، یہ تو پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے آپ کے ساتھ جو عناد رکھتے تھے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا ﴾” اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں“ جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ﴿قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَـٰذَا ۙ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾” تو کہتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسی بات کہہ سکتے ہیں، یہ تو صرف پہلوں کی کہانیاں ہیں“ یہ انہوں نے ظلم اور عناد کی بنا پر کہا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں اور اللہ کے سوا جس کسی کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہیں بلا لیں۔ مگر وہ ایسا نہ کرسکے جس سے ان کی بے بسی ظاہر ہوگئی۔ قائل سے صادر ہونے والا یہ قول مجرد دعویٰ ہے، جس کا جھوٹ ہونا ثابت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے ہوئے نہ تھے‘ آپ لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، گزشتہ قوموں کی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لئے آپ نے کہیں سفر نہیں کیا تھا، بایں ہمہ آپ نے یہ جلیل القدر کتاب پیش کی جس کے سامنے سے یا پیچھے سے باطل دخل اندازی نہیں کرسکتا، یہ کتاب حکمت والے اور قابل تعریف اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔