وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ ۖ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ
اور جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو اس نے تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کی تحریر میں ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
﴿ وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ ﴾” اور جب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ فرو ہوا۔“ یعنی جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور وہ آپے میں آ کر پوری صورت حال کو سمجھ گئے تو وہ اہم ترامور میں مشغول ہوگئے۔ ﴿ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ﴾ ” انہوں نے ان تختیوں کو اٹھایا، جن کو انہوں نے غصے میں آ کر پھینک دیا تھا۔ یہ جلیل القدر تختیاں تھیں۔ ﴿ وَفِي نُسْخَتِهَا﴾” اور ان میں جو لکھا ہوا تھا، یعنی یہ تختیاں جس چیز پر مشتمل تھیں ﴿ هُدًى وَرَحْمَةٌ﴾ ” اس میں ہدایت اور رحمت تھی۔“ ان میں گمراہی اور ہدایت کو واضح کیا گیا تھا۔ حق اور باطل، اعمال خیر، اعمال شر، بہترین اعمال کی طرف راہنمائی، اخلاق و آداب کو ان تختیوں میں کھول کھول کر بیان کیا گیا تھا اور ان تختیوں میں ان لوگوں کے لئے رحمت اور سعادت ہے جو ان پر عمل کرتے ہیں اور ان کے احکام اور معانی کی تعلیم دیتے ہیں۔ مگر ہر شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔﴿ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ ﴾” جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔“ جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے روز اس کے حضور کھڑے ہونے سے نہیں ڈرتا تو اس سے اس کی سرکشی اور روگردانی میں اضافہ ہی ہوگا اور اس بارے میں اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجائے گی۔