سورة البقرة - آیت 3

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ﴾ ” وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں“ حقیقتِ ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جو ارح کی اطاعت کو متضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کرسکتے ہیں۔ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکی ہے۔ زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انہوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کرسکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہنما بنا لیا۔ ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی، مستقبل، احول آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور انکی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔ ﴿وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ﴾ ” اور وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔“ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیں یا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت وہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلوٰۃ یہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ، یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اپنے قول و فعل کا میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت 29؍35) ” بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔“ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندہ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ” اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں“ اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہئے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں نیز خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾ میں (من) تبعیض کے لئے ہے اور یہ بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لئے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس اتفاق سے خود انہیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَزَقْنَاهُمْ ﴾میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمہارے قبضے میں ہے تمہیں تمہاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے۔ اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمہیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نے تمہیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لئے اخلاص کو متضمن ہے اور زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندہ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لئے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لئے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔