قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
فرعون نے کہا تم اس پر اس سے پہلے ایمان لے آئے کہ میں تمھیں اجازت دوں، بے شک یہ تو ایک چال ہے جو تم نے اس شہر میں چلی ہے، تاکہ تم اس سے اس کے رہنے والوں کو نکال دو، سو تم جلد جان لو گے۔
﴿قَالَ فِرْعَوْنُ﴾فرعون نے ان کے ایمان لانے پر ان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ﴾” کیا تم اس پر میری اجازت سے پہلے ہی ایمان لے آئے“ وہ خبیث شخص، جابر حکمران تھا وہ ادیان و مذاہب کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح دیتا تھا۔ ان لوگوں کے ہاں اور خود اس کے نزدیک بھی یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ وہ اطاعت کا حق دار ہے اور ان کے اندر اس کا حکم نافذ ہے اور اس کے حکم سے سرتابی کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔ ان حالات کا شکار ہو کر قومیں انحطاط پذیر ہوتی ہیں ان کی عقل کمزور اور اس کی قوت نفوذ کم ہوجاتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ﴾ (الزخرف :43؍54) ” پس اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی بات مان لی۔“ یہاں فرعون نے کہا ﴿آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ﴾ ” اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے۔“ یعنی یہ تمہاری طرف سے سوء ادبی اور میرے حضور بہت بڑی جسارت ہے۔ پھر اس نے اپنی قوم کے سامنے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے کہا ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا﴾ ” بے شک یہ فریب ہے جو تم نے مل کر شہر میں کیا ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے نکال دو۔“ یعنی موسیٰ تمہارا سردار ہے تم نے اس کے ساتھ مل کر سازش کی تاکہ تم اس کو غلبہ حاصل کرنے میں مدد کرو۔ پھر تم اس کی اطاعت کرو، پھر تمام لوگ یا اکثر لوگ تمہاری اطاعت کریں اور تم سب مل کر یہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو۔ یہ سب جھوٹ تھا، فرعون خود بھی جانتا تھا اصل صورت احوال یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان میں سے کسی جادوگر سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، فرعون اور اس کے ہر کاروں کے حکم پر ان جادوگروں کو جمع کیا گیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام نے وہاں جو کچھ کر دکھایا تھا وہ معجزہ تھا۔ تمام جادوگر ان کو نیچا دکھانے سے عاجز رہے اور حق ان کے سامنے واضح ہوگیا اور وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾” تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا“ کہ تم کس سزا سے دو چار ہونے والے ہو۔