لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، بے شک میں تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا، تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیاء و مرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔۔۔ اور کیسے انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔ چنانچہ نوح جو اولین رسول ہیں، کے بارے میں فرمایا :﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ﴾” ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔“ حضرت نوح علیہ السلام کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ﴿فَقَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ کیونکہ وہی خالق و رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں۔ پھر انہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے“ یہ ان کے لئے نوح کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔