قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
تو کہہ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں؟ کہہ دے یہ چیزیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں (بھی) ہیں، جبکہ قیامت کے دن (ان کے لیے) خالص ہوں گی، اسی طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتے ہیں جو جانتے ہیں۔
1- مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح بعض حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کرلی تھیں (جیسا کہ بعض صوفیا بھی ایسا کرتے ہیں) نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کردینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں، انہیں کون حرام کرنے والا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے حرام کرلینے سے اللہ کی حلال کردہ چیزیں حرام نہیں ہو جائیں گی، وہ حلال ہی رہیں گی۔ یہ حلال و طیب چیزیں اصلاً اللہ نے اہل ایمان ہی کے لئے بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور متمتع ہو لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دنیوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے۔ تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لئے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات و مشروبات بھی حرام ہوں گے۔