سورة البقرة - آیت 87

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے در پے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی۔ پھر کیا جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ چیز لے کر آیا جسے تمھارے دل نہ چاہتے تھے، تم نے تکبر کیا تو ایک گروہ کو جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-﴿وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ﴾ کے معنی ہیں کہ موسیٰ (عليہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں انبیاکا یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) پر ختم ہوگیا۔ ﴿بَيِّنَاتٌ﴾ سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو دیئے گئے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران (آیت 49) میں ہے۔ "رُوحُ الْقُدُسِ" سے مراد حضرت جبریل (عليہ السلام) ہیں، ان کو (روح القدس)اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے، جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو رُوحٌ کہا گیا ہے اور الْقُدُس سے ذات الٰہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے۔ ابن جریر نے اسی کو صحیح تر قرار دیا ہے، کیونکہ المائدۂ (آیت 10) میں (روح القدس) اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اس لئے (روح القدس) سے انجیل مراد نہیں ہوسکتی ایک اور آیت میں حضرت جبریل (عليہ السلام) کو ’’الرُّوحُ الأَمِينُ‘‘ فرمایا گیا ہے اور آنحضرت (ﷺ) نے حضرت حسان! کے متعلق فرمایا :[ اللَّهُمَّ! أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ]۔ ”اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے [ وَجِبْريلُ مَعَكَ ] ۔ ”جبریل (عليہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں۔“ معلوم ہوا کہ روح القدس سے مراد حضرت جبریل (عليہ السلام) ہی ہیں، (فتح البیان، ابن کثیر بحوالہ اشرف الحواشی) 2- جیسے حضرت محمد (ﷺ) اور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو جھٹلایا اورحضرت زکریا ویحییٰ علیھماالسلام کو قتل کیا۔