ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آٹھ قسمیں، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو۔ کہہ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ؟ یا وہ (بچہ) جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔
* یعنی أَنْشَأَ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (اسی اللہ نے آٹھ زوﺝ پیدا کئے ) أَزْوَاجٌ، زَوْجٌ کی جمع ہے۔ ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوﺝ (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک ایک فرد کو بھی زوﺝ کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوﺝ ہوتا ہے۔ قرآن کے اس مقام پر بھی ازواﺝ، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی 8 افراد اللہ نے پیدا کئے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ یہ نہیں کہ زوﺝ (معنی جوڑے) پیدا کئے کیوں کہ اس طرح تعداد 8 کے بجائے 16ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔ ** یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم سے نر اور مادہ ہے یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا بھی شامل ہے )۔ *** مشرکین جو بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو کسی کو بھی حرام نہیں کیا ہے۔ **** تمہارے پاس حرام قرار دینے کی کوئی یقینی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِيرَةٌ، سَائِبَةٍ، وَصِيلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔