سورة الانعام - آیت 136

وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں، ایک حصہ مقرر کیا، پس انھوں نے کہا یہ اللہ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکا کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔ 2- یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔ 3- ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔