ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے آپ کو قتل کرتے ہو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالتے ہو، ان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد گناہ اور زیادتی کے ساتھ کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمھارے پاس آئیں تو ان کا فدیہ دیتے ہو، حالانکہ اصل یہ ہے کہ ان کا نکالنا تم پر حرام ہے، پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تو اس شخص کی جزا جو تم میں سے یہ کرے اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ ہرگز اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔
1-نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے، بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنوقینقاع اور بنونضیر، خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں) کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کولوٹتے، اور انہیں جلا وطن کردیتے۔ دراں حالیکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر ان ہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنالیا تھا، بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کوکوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مددکرنا، ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا تو انہوں نے بےمحابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑا لینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا۔ حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔