إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
بے شک اللہ دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے، وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہی اللہ ہے، پھر تم کہاں بہکائے جاتے ہو۔
1- یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثل قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی (نواة، جمع نوى) کو، جسے کاشت کار زمین کی تہہ میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع واقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے، پانی بھی، جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے، لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرما دیتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی، کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کرسکتا ہو؟ 2- یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا، پھیلتا اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبودار، رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ یا سونگھ کر انسان فرحت وانبساط محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔ 3- یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔