وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیے، ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔
1- یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورۂ ہود،آیت 73،72 میں ہے، پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (عليہ السلام) ہوگا، جس کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے کہ یہ عقب (پیچھے) سے مشتق ہے۔ 2- ”ذُرِّيَّتِهِ“ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (عليہ السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں۔ یعنی حضرت نوح (عليہ السلام) کی اولاد میں سے داود اور سلیمان علیہما السلام کو۔ اور بعض نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو۔ اس لئے کہ ساری گفتگو ان ہی کے ضمن میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (عليہ السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیئے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (عليہ السلام) میں سے نہیں ہیں۔ وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (عليہ السلام) کے بھتیجے ہیں۔ اور ابراہیم (عليہ السلام) ، لوط (عليہ السلام) کے باپ نہیں، چچا ہیں۔ لیکن بطور تغلیب انہیں بھی ذریت ابراہیم (عليہ السلام) میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے۔ جہاں حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کو اولاد یعقوب (عليہ السلام) کے آبا میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے۔ (دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 133)