قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
کہہ دے کیا ہم اللہ کے سوا اس کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے اور نہ ہمیں نقصان دے اور ہم اپنی ایڑیوں پر پھیر دیے جائیں، اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے، اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے، اسی کے کچھ ساتھی ہیں جو اسے سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دے اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی اصل راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جہانوں کے رب کے فرماں بردار بن جائیں۔
1- یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ان ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راستے پر جارہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران وپریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجعت اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔ 2- مطلب یہ ہے کہ کفر وشرک اختیار کرکے جو گمراہ ہوگیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا، اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا ﴿فَإِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ﴾ (النحل: 37) ”اگر تو ان کی ہدایت کی خواہش رکھتا ہے (تو کیا ؟) بےشک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا، جس کو وہ گمراہ کر دے، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بنایا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے۔ جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جاچکی ہے۔