وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور اس کے ساتھ نصیحت کر کہ کہیں کوئی جان اس کے بدلے ہلاکت میں (نہ) ڈال دی جائے جو اس نے کمایا، اس کے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ اور اگر وہ فدیہ دے، ہر فدیہ، تو اس سے نہ لیا جائے، یہی لوگ ہیں جو ہلاکت کے سپرد کیے گئے، اس کے بدلے جو انھوں نے کمایا، ان کے لیے گرم پانی سے پینا اور درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔
1- ”تُبْسَلَ“ أي: لِئَلاَّ تُبْسَلَ، بَسَلٌ کے اصل معنی تو منع کے ہیں، اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ (1) تُسَلَّمُ (سونپ دیئے جائیں) (2) تُفْضَحُ (رسوا کردیا جائے) (3) تُؤَاخَذُ (مواخذہ کیا جائے) (4) تُجَازَى (بدلہ دیا جائے)۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ایک ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہیں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیاجائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے (پھنس نہ جائے) سے تعبیر کیا ہے۔ 2- دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی سفارش سے یا مالی معاوضہ دے کرچھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے۔ وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لے، نہ کوئی سفارشی ہو گا جو انہیں عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ دینے کے لئے کچھ ہوگا، اگر بالفرض ہو بھی تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔