قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
کہہ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟ کہہ اللہ کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحم کرنا لکھ دیا ہے، یقیناً وہ تمھیں قیامت کے دن کی طرف (لے جا کر) ضرور جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، سو وہی ایمان نہیں لاتے۔
1- جس طرح حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر یہ لکھ دیا [ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ] یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔ (صحيح بخاری، كتاب التوحيد، وبدء الخلق، مسلم كتاب التوبة)، لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد، فرماں برداراور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کرنے کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ عموم صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دارالجزا ہے، وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر وفسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ﴾ (الأعراف: 156) ”اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں“۔