يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! وہ پاکیزہ چیزیں حرام مت ٹھہراؤ جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو، بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
حدیث میں آتا ہے ایک شخص نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ کر کہا یا رسول اللہ! (ﷺ) جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہو جاتا ہے، اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا ہے، جس پر آیت نازل ہوئی۔ ( ترمذی- للألباني جلد 3 ص 46) اسی طرح سبب نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ (رضی الله عنہم) زہد وعبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے (مثلاً عورت سے نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے وقت کھانے پینے سے) اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبی (ﷺ) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ (ﷺ) نے انہیں منع فرمایا۔ حضرت عثمان بن مظعون (رضی الله عنہ) نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی، ان کی بیوی کی شکایت پر آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اس سے روکا۔ (کتب حدیث) بہرحال اس آیت اور احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کرلینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا تعلق ماکولات ومشروبات سے ہو یا لباس سے ہو یا مرغوبات وجائز خواہشات سے۔ مسئلہ:۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی، سوائے عورت کے۔ البتہ اس صورت میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ نبی (ﷺ) نے کسی کو بھی کفارۂ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کرلینا، یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے جو تکفیر (یعنی کفارہ ادا کرنے) کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔ فَالصَّحِيحُ مَا قَالَهُ الشَّوْكَانِيُّ۔ (امام شوکانی کا قول ہی صحیح ہے)