وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ
اور اگر وہ واقعی تورات اور انجیل کی پابندی کرتے اور اس کی جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے تو یقیناً وہ اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے۔ ان میں سے ایک جماعت درمیانے راستے والی ہے اور ان میں سے بہت سے لوگ، برا ہے جو کر رہے ہیں۔
1- تورات اور انجیل کے پابند رہنے کا مطلب، ان کے ان احکام کی پابندی ہے جو ان میں انہیں دیئے گئے، اور انہی میں ایک حکم آخری نبی پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور ”وَمَا أُنْزِلَ“ سے مراد تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا ہے جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام قبول کرلیتے۔ 2- اوپر نیچے کا ذکر یا تو بطور مبالغہ ہے، یعنی کثرت سے اور انواع واقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا۔ یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے۔ یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پیداوار دیتی۔ نتیجتاً شادابی اور خوش حالی کا دور دورہ ہو جاتا۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ﴾ (الأعراف: 96) ”اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہوتا تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکات کے (دروازے) کھول دیتے“۔ 3- لیکن ان کی اکثریت نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ اپنے کفر پر مصر اور رسالت محمدی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اسی اصرار اور انکار کو یہاں برے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درمیانہ روش کی ایک جماعت سے مراد عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) جیسے 8 ،9 افراد ہیں جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔