قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
کہہ دے کیا میں تمھیں اللہ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتاؤں، وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر غصے ہوا اور جن میں سے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ یہ لوگ درجے میں زیادہ برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔
1- یعنی تم تو (اے اہل کتاب!) ہم سے یوں ہی ناراض ہو جب کہ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اللہ پر اور قرآن کریم اور اس سے قبل اتاری گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا یہ بھی کوئی قصور یا عیب ہے؟ یعنی یہ عیب اور مذمت والی بات نہیں، جیسا کہ تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ استثنا منقطع ہے۔ البتہ ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ بدترین لوگ اور گمراہ ترین لوگ، جو نفرت اور مذمت کے قابل ہیں، کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوا اور جن میں سے بعض کو اللہ نے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی پوجا کی۔ اور اس آئینے میں تم اپنا چہرہ اور کردار دیکھ لو! کہ یہ کن کی تاریخ ہے اور کون لوگ ہیں؟ کیا یہ تم ہی نہیں ہو؟