وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اور ہم نے اس میں ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلہ ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
1- جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تھا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنونضیر) کا دوسرے قبیلے (بنوقریظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بہ نسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔ 2- یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے نے مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الٰہی کو اپنائے، اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الٰہی میں ظالم متصور ہوگا، فاسق متصور ہوگا اور کافر متصورہوگا۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کرکے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی؟ ملحوظة: علمائے اصولیین نے لکھا ہے کہ پچھلی شریعت کا حکم، اگر اللہ نے برقرار رکھا ہے تو ہمارے لئے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس آیت میں بیان کردہ حکم غیر منسوخ ہے اس لئے یہ بھی شریعت اسلامیہ ہی کے احکام ہیں جیسا کہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے ﴿النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ ( جان، بدلے جان کے) کے عموم سے دو صورتیں خارج ہوں گی۔ کہ کوئی مسلمان اگر کسی کافر کو قتل کر دے تو قصاص میں اس کافر کے بدلے مسلمان کو، اسی طرح غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، فتح الباری ونیل الاوطار وغیرہ)