مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر، یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا اور بلاشبہ ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے، پھر بے شک ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں یقیناً حد سے بڑھنے والے ہیں۔
1- اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے پوچھا یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لئے تھی؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بنواسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے“ (تفسیر ابن کثیر) 2- اس میں یہود کو زجروتوبیخ ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل وبراہین لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا۔ اس میں گویا نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازشیں کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ان کی ساری تاریخ ہی مکروفساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیر الماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔