وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اور ان لوگوں سے جنھوں نے کہا بے شک ہم نصاریٰ ہیں، ہم نے ان کا پختہ عہد لیا، پھر وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور کینہ وری بھڑکا دی اور عنقریب اللہ انھیں اس کی خبر دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
1- ”نَصَارَى“ ”نُصْرَةٌ“ (مدد) سے ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال ﴿مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ﴾ (اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے؟) کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا ﴿نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ﴾ (ہم اللہ کے مددگار ہیں) اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ نے عہد لیا، لیکن انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پذیری سے خالی اوران کے کردار کھوکھلے ہوگئے۔ 2- یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بے عملی کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لئے مسلط کر دی گئی۔ چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت وعناد رکھتے اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معبد میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کر دی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت و عناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔