يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سدھائے ہیں، (جنھیں تم) شکاری بنانے والے ہو، انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
1- اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور حرام خبیث۔ 2- ”جَوَارِحُ“، ”جَارِحٌ“ کی جمع ہے جو کاسب (کمانے والا) کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ ”مُكَلِّبِينَ“ کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لئے سدھایا گیا ہو۔ سدھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔ 3- ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کرکے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کہ اگر اس نے اسے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی وہ مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو۔ (صحيح بخاری، كتاب الذبائح والصيد ،مسلم، كتاب الصيد)۔