سورة النسآء - آیت 127

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، کہہ دے اللہ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جنھیں تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو اور نہایت کمزور بچوں کے بارے میں ہے اور اس بارے میں ہے کہ یتیموں کے لیے انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھی نیکی کرو سو بے شک اللہ ہمیشہ سے اسے خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے تھے، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔ 2- ﴿وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ﴾ اس کا عطف ﴿اللهُ يُفْتِيكُمْ﴾ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہو چکی ہیں، مراد ہے سورۂ نساء کی آیت 3 جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا ہے کہ وہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن وجمال کی وجہ سے شادی تو کر لیتے ہیں لیکن مہر مثل دینے سے گریز کرتے تھے۔ 3- اس کے دو ترجمے کئے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے، اس میں ”فی“ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ ”عن“ کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ﴿تَرْغَبُونَ عَنْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ﴾ (تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو) رَغِبَ کا صلہ عَنْ آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے ﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ﴾ میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بدصورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثا خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ 4- اس کا عطف ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ پر ہے۔ یعنی ”وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ وَفِي الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ“ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر 3) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا۔ جب کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتاتھا، چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دیا۔ 5- اس کا عطف بھی ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا یہ حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو (جیسا کہ تفصیل گزری)۔