سورة النسآء - آیت 125

وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے تابع کردیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہوجانے والا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جارہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کردے، محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہو جائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقیناً اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی علیہ الصلاۃ والسلام (فتح القدیر )۔ اور نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے: اللہ نے مجھےبھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا۔“ (صحيح مسلم، كتاب المساجد)