وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا
اور جو شخص نیک کاموں میں سے (کوئی کام) کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور کھجور کی گٹھلی کے نقطے کے برابر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
1- جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اہل کتاب اپنے متعلق بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی محض امیدوں اور آرزوؤں سے نہیں ملے گی۔ اس کے لئے تو ایمان اور عمل صالح کی پونجی ضروری ہے۔ اگر اس کے برعکس نامۂ اعمال میں برائیاں ہوں گی تو اسے ہر صورت میں اس کی سزا بھگتنی ہوگی، وہاں کوئی ایسا دوست یا مدد گار نہیں ہوگا جو برائی کی سزا سے بچا سکے۔ آیت میں اہل کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی خطاب فرمایا ہے تاکہ وہ بھی یہود ونصاریٰ کی سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور عمل سے خالی آرزؤں اور تمناؤں سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ لیکن افسوس مسلمان اس تنبیہ کے باوجود انہیں خام خیالیوں میں مبتلا ہوگئے جن میں سابقہ امتیں گرفتار ہوئیں۔ اور آج بےعملی اور بدعملی مسلمان کا بھی شعار بنی ہوئی ہے اور اس کے باوجود وہ امت مرحومہ کہلانے پر مصر ہے۔ هَدَانَا اللهُ تَعَالَى