سورة النسآء - آیت 115

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے۔ اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے رسول (ﷺ) کی مخالفت اورغیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر وضلال ہی ہے۔ بعض علما نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سےانحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علما وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رضی الله عنہم) کے بعد کسی مسئلے پر پوری امت کے اجماع واتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما وفقہا کا اتفاق ہو، تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کے اجماع کے انکار کی طرح، کفر ہے، اس لئے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکھٹا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ (صحیح ترمذی للالبانی حدیث نمبر 1759)