لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ان کی بہت سی سر گوشیوں میں کوئی خیر نہیں، سوائے اس شخص کے جو کسی صدقے یا نیک کام یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم دے اور جو بھی یہ کام اللہ کی رضا کی طلب کے لیے کرے گا تو ہم جلد ہی اسے بہت بڑا اجر دیں گے۔
1- نَجْوَى( سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ 2- یعنی صدقہ خیرات، معروف (جو ہر قسم کی نیکی کو شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں جو مشورے، خیر پر مبنی ہیں، جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت واہمیت بیان کی گئی ہے۔ 3- کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع جائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ نعوذ بالله من الرياء والنفاق۔ 4- احادیث میں اعمال مذکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا (صحيح مسلم، كتاب الزكاة) نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی طرح رشتے داروں، دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا، بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نفلی نمازوں اور نفلی صدقات وخیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا: [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا بَلَى:قال: إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، قَالَ: وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ ] (ابوداود کتاب الادب۔ ترمذی،کتاب البرومسند احمد6 /444 ،445) حتی کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے [ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، فَيَنْمِي خَيْرًا أو يَقُولُ خَيْرًا ] (بخاری، كتاب الصلح مسلم والترمذی، كتاب البر- أبو داود، كتاب الأدب)وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا یا اچھی بات کرتا ہے۔