هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِي حِجْرٍ
یقیناً اس میں عقل والے کے لیے بڑی قسم ہے۔
1- ذَلِكَ سے مذکور مقسم بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل ودانش کے واسطے کافی نہیں ہے؟ حِجْرٌ کے معنی ہوتے ہیں، روکنا، منع کرنا۔ انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے، اس لئے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے، جس طرح اسی مفہوم کے اعتبار سے اسے نھیہ بھی کہتے ہیں۔ جواب قسم یا مقسم علیہ لَتُبْعَثُنَّ ہے کیوں کہ مکی سورتوں میں عقیدے کی اصلاح پر زور دیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک جواب قسم آگے آنے والے الفاظ ﴿إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾ ہے۔ آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہاہے جو تکذیب وعناد کی بنا پر ہلاک کی گئی تھیں۔ مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول (ﷺ) کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہو سکتا ہے، جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔